اسلام آباد : سانحہ آرمی پبلک سکول میں سپریم کورٹ کے طلب کرنے پر وزیر اعظم عمران خان عدالت پیش ہوئے اور روسٹرم پر آئے ، عدالت نے ریمارکس دیے کہ شہداء کے والدین چاہتے ہیں اس وقت کے اعلیٰ حکام کیخلاف کارروائی ہو ، وزیر اعظم نے جواب دیا کہ ملک میں کوئی مقدس گائے نہیں ، آپ حکم دیں ، ہم کارروائی کریں گے ۔
چیف جسٹس پاکستان جسٹس گلزار احمد کی زیر سربراہی سپریم کورٹ کے تین رکنی بنچ نے سانحہ اے پی ایس کے از خود نوٹس کی سماعت کی ، عدالت نے وزیر اعظم کو طلب کیا جس پر وزیر اعظم سپریم کورٹ پیش ہوئے اور روسٹرم پر آئے ، عدالت نے وزیر اعظم سے کہا کہ آپ ہمارے وزیر اعظم ہیں اور قابل احترام ہیں، لیکن اب تک حکومت نے کیا اقدامات کئے ہیں ، ہمیں آپ کی پالیسی سے کوئی غرض نہیں ۔ جسٹس قاضی امین نے ریمارکس دیے کہ مسٹر پرائم منسٹر ہم کوئی چھوٹا ملک نہیں ، ہماری آرمی دنیا کی چھٹی بڑی آرمی ہے ، آپ مجرمان کو ٹیبل پر مذاکرات کیلئے لے آئے ؟،کیا پھر سرنڈڈ ڈاکیومنٹ سائن کرنے جا رہے ہیں ، تسلیم کریں کہ سانحہ اے پی ایس میں ہماری انٹیلی جنس ناکام ہوئی ، کیا کسی انٹیلی جنس ادارے کے خلاف کوئی کارروائی ہوئی ۔جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا کہ یہ بتائیں سانحہ اے پی ایس کس نے ہونے دیا، رپورٹ کے مطابق بچے آسان ہدف تھے مگر ان کو بچانے کیلئے کوئی اقدامات نہیں تھے آسان ہدف کو تحفظ نہ دینا بڑی ناکامی ہے ۔
وزیر اعظم نے عدالت میں کہا کہ مجھے موقع دیں میں وضاحت کرتا ہوں ، ہمارا نائن الیون کے ساتھ کوئی تعلق نہیں تھا، نائن الیون میں کوئی پاکستانی ملوث نہیں تھا ، پرویز مشرف نے دباؤ میں آکر جنگ شروع کی ، میں نے امریکی جنگ میں کودنے کی مخالف کی تھی ، اس جنگ میں ہم نے 80 ہزار قربانیاں دیں ،سانحہ اے پی ایس کے وقت ہماری مرکز میں حکومت نہیں تھی ، صوبے میں حکومت تھی ، ہم نے شہداء کے لواحقین کیلئے ہر ممکن کام کیا ۔ میں خود پشاور پہنچا ، ہسپتال میں زخمیوں کی عیادت کی ، والدین اس وقت سکتے کی حالت میں تھے۔جسٹس قاضی امین نے ریمارکس دیے کہ وزیر اعظم صاحب ! یہاں وہاں کی باتیں نہ کریں مدعا پر رہیں ۔ عدالت نے ریمارکس دیے کہ والدین کو مراعات نہیں ان کے بچے چاہئے تھے ۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اب تو آپ اقتدار میں ہیں ، آپ نے کیا کیا ، 7 سال ہو گئے ہیں ، کمیشن بنا چکے ہیں ، رپورٹ آ چکی ہے ، 20 اکتوبر کو ہمارا حکم تھا کہ ذمہ داران کے خلاف کارروائی کی جائے ۔ وزیر اعظم نے کہا کہ اٹارنی جنرل نے بتایا ہے کہ اس وقت کے عہدیداران پر کرمنل نہیں ، اخلاقی ذمہ داری عائد ہوتی ہے ۔پتہ لگایا جائے کہ 80 ہزار جانوں کے نقصان کا ذمہ دار کون ہے ، یہ بھی پتہ لگایا جانا چاہئے کہ 400 سے زائد ڈرون حملوں کا ذمہ دار کون ہے۔ چیف جسٹس نے کہا آپ وزیر اعظم ہیں ، ان باتوں کا آپ کو علم ہونا چاہئے ۔
جسٹس قاضی امین نے ریمارکس دیے کہ جمہوریت میں اخلاقی ذمہ داریوں میں غفلت پر استعفے دیے جاتے ہیں مگر یہاں کلچر کچھ اور ہے ۔ اٹارنی جنرل نے عدالت میں کہا کہ سانحے کے روز اگر اس وقت کے وزیر اعظم ، آرمی چیف استعفیٰ دے دیتے تو بھی مسئلہ حل نہ ہوتا ۔ جسٹس قاضی امین نے ریمارکس دیے کہ اگر یہ مستعفی ہو جاتے تو ان سے بہتر آجاتے ۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے وزیر اعظم سے کہا کہ ہم نے آخری آرڈر میں کچھ نام دیے تھے ، اٹارنی جنرل سے کہا تھا کہ اعلیٰ سطح کمیٹی سے پوچھیں ان ناموں کا کیا کرنا ہے ، ہم آپ سے یقین دہانی چاہتے ہیں کہ آپ کارروائی کریں گے ، شہداء کے ورثاء کو تسلی ہو کہ عدالت اور حکومت سانحہ اے پی ایس کو بھولی نہیں ، غیر جانبداری سے والدین کی جانب سے نامزد افراد سے تحقیقات تو ہوں ؟۔
وزیراعظم نے عدالت کو ذمہ داروں ،غفلت کےمرتکب افراد کیخلاف کارروائی کی یقین دہانی کرائی اور کہا کہ انصاف کی جو تحریک 25 سال قبل چلائی تھی آج بھی اس پر قائم ہوںسپریم کورٹ نے 4 ہفتوں میں عملدرآمد رپورٹ طلب کرلی ،عدالت نے حکم دیا کہ عملدرآمد رپورٹ وزیر اعظم کے دستخط سے جمع کرائی جائے ،جس کی بھی غفلت ثابت ہواس کیخلاف کارروائی کی جائے، وفاقی حکومت شہداء کےوالدین کا مؤقف بھی سنے۔
عدالت نے وزیر اعظم سے استفسار کیا کہ وزیراعظم صاحب ! آپ متاثرہ بچوں کےوالدین سے ملے؟، وزیر اعظم نے کہا کہ میں بچوں کےوالدین سے کئی بارملاہوں ، عدالت نے ہدایت کی کہ آپ ان کو پرسہ دیں ،ان کی تسلی کرائیں ،شکایات دورکریں۔
اس سے قبل آج صبح جب کیس کی سماعت شروع ہوئی تواٹارنی جنرل عدالت پیش ہوئے ۔دوران سماعت چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیے کہ ملک میں اتنا بڑا انٹیلی جنس سسٹم ہے ، اربوں روپے خرچ ہوتے ہیں ، دعویٰ ہے ہم دنیا کی بہترین انٹیلی جنس ہیں ،اپنے لوگوں کے تحفظ کی بات آئے تو انٹیلی جنس کہاں چلی جاتی ہے ؟، بچوں کو سکول میں مرنے کیلئے نہیں چھوڑ سکتے ، چوکیدار اور سپاہیوں کے خلاف تو کارروائی کر دی گئی ، اصل کارروائی تو اوپر سے شروع ہونی چاہئے ، اوپر والے تنخواہیں اور مراعات لے کر چلتے بنے ، کیا سابق آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی کے خلاف مقدمہ درج ہوا؟ ۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ یہ ممکن نہیں کہ دہشتگردوں کو اندر سے سپورٹ نہ ملی ہو، سننے میں آرہا ہے کہ ریاست کسی گروہ سے مذاکرات کر رہی ہے ؟، کیا اصل مجرموں تک پہنچنا اور انہیں پکڑنا ریاست کی ذمہ داری نہیں ۔چیف جسٹس پاکستان جسٹس گلزار احمد نے اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ کیا وزیر اعظم نے عدالتی حکم پڑھا ہے ؟۔جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ سانحہ اے پی ایس سکیورٹی کی ناکامی تھی ، کیس میں رہ جانے والے خلاء سے متعلق آپ کو آگاہ کرنے کو کہا تھا ؟۔
اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ سابق آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی کے خلاف انکوائری رپورٹ میں کوئی فائنڈنگ نہیں ، وزیر اعظم کو عدالتی حکم نہیں بھیجا تھا ، وزیر اعظم کو عدالتی حکم سے آگاہ کروں گا، ہم تمام غلطیاں تسلیم کرتے ہیں ، دفتر چھوڑ دوں گا لیکن کسی کا دفاع نہیں کروں گا، اعلیٰ حکام کے خلاف ایف آئی آر درج نہیں ہو سکتی ۔
عدالت نے اٹارنی جنرل پر برہمی کا اظہار کرتےہوئے وزیر اعظم کو آج ہی عدالت پیش ہونے کا حکم دیا تھا۔
کوئی تبصرے نہیں
ایک تبصرہ شائع کریں